nazam
بُدھا صدی کے اختتام سے پہلےانسان کا بڑا سماجی المیہ کیا ہو گا۔۔۔ دوست وحدت نہیں بچے گیلوگ مونوگیمس ریلینشنز سے اُکتا کرودڈرا کی اجتماعی خودکُشی کریں گے۔۔۔ فرح دیبا اکرم
بُدھا صدی کے اختتام سے پہلےانسان کا بڑا سماجی المیہ کیا ہو گا۔۔۔ دوست وحدت نہیں بچے گیلوگ مونوگیمس ریلینشنز سے اُکتا کرودڈرا کی اجتماعی خودکُشی کریں گے۔۔۔ فرح دیبا اکرم
آنکھیں یوں جاگتی رہتی ہیںجیسے کبھی سوئی نہ ہوںگر کسی درد کی پاداش میںتھک بھی جائیں تو کھلی رہتی ہیںرات جب ڈوب جائے۔۔۔دن کو گھورنے لگتی ہیںنجانے کس خوف میں مبتلا ہیںذیادہ ہنسوں تو رونے لگتی ہیں۔۔۔معلوم نہیں کیا دیکھ لیا تھااونگ آئے تو چیخ اُٹھتی ہیں۔۔۔کسی سانحے میں پتھرائی گئیںاُجڑے ہوئے منظر کی چشم …
ایسا نہیں، وہ شخص یاد نہیں آتالیکن اب یاد کرنے سے یاد آتا ہےوگرنہ گھنٹوں گماں نہیں گزرتا۔۔۔ یہ نہیں کوئی خواہش مجھ میں سانس لیتی ہواور دل سے آذاد ہو گئے ہوں۔۔۔یہ بھی ہوا نہیںاب تلک عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں دونوںہم نہیں تو ہمارے اختتام کا زمہ دار کون تھا۔۔۔جس ملاقات کے بعد …
شہر ایسے بڑھ رہے ہیں کہمضافات میں موجودگاؤں بھی نگلتے جا رہے ہیں۔شہر گاؤں کے ساتھ وہی کر رہے ہیںجو ہمارے ساتھ کولونائزرز نے کیا تھا۔گاؤں کو other بنا کرانہیں سویلائزڈ بنانے کی مہمپوری تندہی کے ساتھ جاری ہے۔لیکن اس خیر خواہی کے نتیجے میںوہاں موجود لوگ اپنے کلچر کوبیک ورڈ سمجھ کر ترک کررہے …
مسلسل جاگتے ہیںہمارے شہر سوتے کیوں نہیںان کی نیند کہاں رہتی ہے؟کسی کی سزا کاٹ رہے ہیں؟نیند کی گولی کیوں نہیں لیتے؟۔۔۔ شہروں کو سونا چاہیےورنہ پاگل ہو جائیں گےآسیب رات میں اُترے گادن میں جاگنے والے نہیں رہیں گےوقت کی سوئیاں اُلٹی گھومیں گیہم خالی جگہوں میں سر پَٹ بھاگیں گے۔۔۔ خدا کرے، عشق …
پچھلے سال کئی صبحیںہم نے کھڑکی سے اکھٹے دیکھیں تھیںکتنی دُھندلی شامیں ایک ساتھرات میں رخصت کی تھیںیاد ہے وینس کے رستوں پہہمیں ان گنت پھولوں نے چھوا تھانیل کے کنارے، بچپن میں کھو کرخوشحال گھروندے بنائے تھےتُمیں یاد ہے سوربون کے کیفے سےکرسٹیوا کو چھ بار کوفی پلا کےسیمون پہ اتنی باتیں کی تھیںکہ …
بُدھا ملاقات تو نہیں ہوئیلیکن، روح شناسا تھیآج بے وقت جو چلا گیا ہے۔۔۔ نسّیں دکھ میں پھٹ رہی ہیںاُس کے لئے کچھ لکھنا چاہتی ہوںمگر لفظ سے پہلے آنسو نکل آتے ہیں۔۔۔ دوست تمہارا لکھنا وہ احتجاج ہےجو ہمیشہ جائے وقوع پہ ہوتا ہےکبھی حادثے سے پہلے نہیں۔۔۔تم انسان کا جینا نہیں، مرنا سیلیبریٹ …
گھنے درختوں میں گِریدئیوں کی اُوٹ میں لپٹی سڑک کے درمیاننیند میں مگن فٹپاتھ کو چھوڑ کرہم کسی کو الوداع کہنے کے واسطےبے تُکی باتوں میں، بے ترتیب ٹہلتے جا رہے تھے۔۔۔ لین کی خاموشی ہمارے قہقہوں سےپھیلتی، سُکڑتی، جا رہی تھیچاند ابھی سرِ آسمان جاگا نہیں تھاوہ گھر گرمی کی تاریکی میں شرابور تھایکا …
دوست ساتھ کیوں نہیں ہو۔۔۔سب کس کی وجہ سے ہوا۔۔۔ معلوم ہے بُدھا، جب قربت چُبھنے لگےجملے طنز بن جائیںگفتگو کا دائرہ بحث میں پھنس جائےہر رات کی صبح جھگڑے پہ ختم ہودوسروں کی موجودگی میںمحبت کا ناٹک کرتے کرتےآپ ندامت سے شرمسار رہنے لگیںہر بات پہ اپنا آپ جسٹیفائی کرنا پڑےایک چھت تلے خود …
بُدھا عجیب جھول ہےآگے جاتا ہوا پیچھے آ رہا ہےواپس آنے والا دور ہو رہا ہےہم ٹھہرے ہوئے حرکت میں ہیںکبھی وقفے میں سب چلتے ہوئےہماری آنکھیں دیکھ لیتی ہیںذہن کی داخلی دنیا کا تجریدی عکس۔۔۔ فرح دیبا اکرم