پچھلے سال کئی صبحیں
ہم نے کھڑکی سے اکھٹے دیکھیں تھیں
کتنی دُھندلی شامیں ایک ساتھ
رات میں رخصت کی تھیں
یاد ہے وینس کے رستوں پہ
ہمیں ان گنت پھولوں نے چھوا تھا
نیل کے کنارے، بچپن میں کھو کر
خوشحال گھروندے بنائے تھے
تُمیں یاد ہے سوربون کے کیفے سے
کرسٹیوا کو چھ بار کوفی پلا کے
سیمون پہ اتنی باتیں کی تھیں
کہ لاکاں خفا ہو کر
پیرس کی خشبوؤں میں کھو گیا تھا
ہم کتنے گھنٹے اورکوٹ پہنے
ہاتھوں کو جیبوں میں بھر کے
سرد گلیوں میں سارتر ڈھونڈتے ڈھونڈتے
ڈیریڈا سے جا ٹکرائے تھے
پھر رات کے آخری پہر تلک
سگار کے جاذبی دُھوئیں میں
سب کے چہرے تلاشتے تلاشتے
اپنا چہرہ وہیں چھوڑ آئے تھے
تمہیں تو یاد ہی ہو گا
ہم پچھلے سال
سب کو سائلنس زون میں
گڈ بائے کہہ آئے تھے۔۔۔

فرح دیبا اکرم