گھنے درختوں میں گِری
دئیوں کی اُوٹ میں لپٹی سڑک کے درمیان
نیند میں مگن فٹپاتھ کو چھوڑ کر
ہم کسی کو الوداع کہنے کے واسطے
بے تُکی باتوں میں، بے ترتیب ٹہلتے جا رہے تھے۔۔۔

لین کی خاموشی ہمارے قہقہوں سے
پھیلتی، سُکڑتی، جا رہی تھی
چاند ابھی سرِ آسمان جاگا نہیں تھا
وہ گھر گرمی کی تاریکی میں شرابور تھا
یکا یک دیومالائی خوشبو نتھنوں میں بھر آئی
میں نے مُڑ کہ اپنی اُلٹی طرف دیکھا
وہ بالکونی میں کھڑی مسکرائے جا رہی تھی
زندگی پیاری بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔

اسکی اندھیرے میں ٹمٹماتی وہ آنکھیں۔۔۔
زمانے کے سارے حبس پہ بھاری تھیں۔۔۔

فرح دیبا اکرم