مسلسل جاگتے ہیں
ہمارے شہر سوتے کیوں نہیں
ان کی نیند کہاں رہتی ہے؟
کسی کی سزا کاٹ رہے ہیں؟
نیند کی گولی کیوں نہیں لیتے؟۔۔۔

شہروں کو سونا چاہیے
ورنہ پاگل ہو جائیں گے
آسیب رات میں اُترے گا
دن میں جاگنے والے نہیں رہیں گے
وقت کی سوئیاں اُلٹی گھومیں گی
ہم خالی جگہوں میں سر پَٹ بھاگیں گے۔۔۔

خدا کرے، عشق میں کسی کو چُپ نہ لگے
شہروں کا توازن، کلام کے حلق میں پھنس جاتا ہے۔۔۔

فرح دیبا اکرم