آنکھیں یوں جاگتی رہتی ہیں
جیسے کبھی سوئی نہ ہوں
گر کسی درد کی پاداش میں
تھک بھی جائیں تو کھلی رہتی ہیں
رات جب ڈوب جائے۔۔۔
دن کو گھورنے لگتی ہیں
نجانے کس خوف میں مبتلا ہیں
ذیادہ ہنسوں تو رونے لگتی ہیں۔۔۔
معلوم نہیں کیا دیکھ لیا تھا
اونگ آئے تو چیخ اُٹھتی ہیں۔۔۔
کسی سانحے میں پتھرائی گئیں
اُجڑے ہوئے منظر کی چشم دید
فقیر کے کشکول جیسی خالی آنکھیں۔۔۔
فرح دیبا اکرم