بُدھا ملاقات تو نہیں ہوئی
لیکن، روح شناسا تھی
آج بے وقت جو چلا گیا ہے۔۔۔
نسّیں دکھ میں پھٹ رہی ہیں
اُس کے لئے کچھ لکھنا چاہتی ہوں
مگر لفظ سے پہلے آنسو نکل آتے ہیں۔۔۔
دوست تمہارا لکھنا وہ احتجاج ہے
جو ہمیشہ جائے وقوع پہ ہوتا ہے
کبھی حادثے سے پہلے نہیں۔۔۔
تم انسان کا جینا نہیں، مرنا سیلیبریٹ کرتے ہو۔
لوگ درد سہنے، بانٹنے، پھر ہمدردیاں سمیٹنے کے شوقین ہوچکے ہیں۔۔۔
دیکھو، حقیقت رونے لکھنے سے بہت دور جا چکی ہے۔
تمہاری اتنی بڑی دنیا۔۔۔
اچھے دل اور بڑے زہن کے لئے
بدقسمتی سے اب چھوٹی ہو گئی ہے۔۔۔
فرح دیبا اکرم