جہاز نے پر کھولے
ایک گھنٹہ پنتالیس منٹ میں
میرا شہر تبدیل ہو گیا۔۔۔

روشنیوں کا شہر
دئیے کی آخری ہچکی کی طرح
ٹمٹما رہا تھا۔۔۔

کراچی کب سوتا ہے؟
کراچی نہیں سوتا۔۔۔
کراچی رات کی تنہائی میں
مسخ شدّہ چہرے کا ماتم کرتا ہے۔۔۔
دن کی شوریدگی میں
نیم مُردہ کہ نیم پاگل
کوڑے دان میں پڑا رہتا ہے۔۔۔
پُر اسراریت کی لہریں
کائنات کے راز سمیٹ کر
دھیرے سے سمندر میں اُتر جاتی ہیں۔۔۔

وردہ تمہارے گھر میں تنہائی کب سے آباد ہے؟
معلوم نہیں۔۔۔لیکن
اندر کی دنیا آباد ہو گئی ہے۔۔۔
سُنو! تمہاری تنہائی کمیاب ہے
اس میں سکون ہے وحشت نہیں۔۔۔

بالکونی؟؟؟
بریدنگ سپیس۔۔۔
وقت کی قید سے آذاد
زمانے کے قاعدوں سے ماورا
ہم خاموش گفتگو میں محو ہیں۔۔۔

فرح دیبا آکرم