ایسا نہیں، وہ شخص یاد نہیں آتا
لیکن اب یاد کرنے سے یاد آتا ہے
وگرنہ گھنٹوں گماں نہیں گزرتا۔۔۔

یہ نہیں کوئی خواہش مجھ میں سانس لیتی ہو
اور دل سے آذاد ہو گئے ہوں۔۔۔یہ بھی ہوا نہیں
اب تلک عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں دونوں
ہم نہیں تو ہمارے اختتام کا زمہ دار کون تھا۔۔۔
جس ملاقات کے بعد کبھی مل نہیں سکے
اُس میں تو جلد ملنے کا عہد باندھا تھا
کتنے خوش خوش اس دروازے سے نکل کر
اپنے اپنے راستے کی طرف چل دئیے تھے۔۔۔
ہمیں احساس بھی کہاں تھا، یہ وقت آخری ہے
زمانے نے ہماری زندگی کے راستے بدل دئیے ہیں
وہ خدا حافظ ابھی بھی مجھ میں باقی ہے۔۔۔
جو بچھڑتے وقت نمدیدہ آنکھیں، بوجھل قدموں اور ڈھوبتے دل سے۔۔۔
پہلی محبت کو آخری بار دیکھتے ہوئے، خاموش ہونٹوں سے ادا کرتے ہیں۔۔۔

کتنے برس بیت گئے لیکن درد اتنا ہی تازہ ہے۔۔۔
گمشدہ محبت کا مرہم وقت نہیں، محبوب ہوتا ہے۔۔۔

فرح دیبا اکرم