ایک ایک گھنٹے کو
پہلے سیکنڈ سے
ساٹھویں سیکنڈ تک
چوبیس گھنٹے۔۔۔
پوری یکسوئی سے جیا ہے
وقت نہیں بدلتا۔۔۔
سوئی کی ٹک ٹک تک نہیں بدلتی۔۔۔

دن اُسی آب و تاب سے چڑھتا ہے
وہی پیمانہ ہے اس کے اُتر جانے کا۔۔۔
کہیں ذیادہ، کہیں کم، کہیں ڈھوبتا ہی نہیں۔۔۔

موسموں کی حاضری سے رخصت تک
فطرت کے مزاج میں اپنا آوارہ پن ہے
ہوا ویسے ہی رقص کرتی ہوئی۔۔۔
شام کو کھڑکیوں کی جالیوں پہ ٹھہر جاتی ہے
پرندوں کی روایتی موسیقی نے
کیلنڈر کا ذائقہ نہیں چکھا۔۔۔
پہاڑ، دریا، سمندر۔۔۔درخت، جانور، کھیت کھلیان
کسی نے اپنی تقدیر سے کبھی بغاوت نہیں کی
سبھی آنکھوں پہ پٹی باندھے گھوم رہے ہیں۔۔۔

بُدھا دنیا میں انسان کے سوا
خود سے کچھ نہیں بدلتا۔۔۔
تبدیلی کی کونپل اندر پھوٹتی ہے
زماں و مکاں فقط ہمارا آئینہ ہیں۔۔۔

فرح دیبا اکرم