لوگوں کی بھی سُن لیں گے
آؤ ناں فرینک سناٹرا کو سُنیں
Strangers in the night Exchanging glances wandering in the night…

تم زندگی سے ایسے مشغلے کر سکتے ہو
مگر میں نہیں، مجھے ڈر لگتا ہے
اُس سماج سے جو میرے لباس میں،
میرا کردار دیکھتا ہے۔۔۔
میرے قدم دہلیز سے نکلیں تو
اُمت کا ایمان خطرے میں آ جاتا ہے
دنیا میں کہیں، کوئی کچھ بھی کر لے
کسی الہامی دین پہ کوئی آنچ نہیں آتی
ہاں اگر میں اپنی شناخت بنانا چاہوں تو
زمانہ قیامت کا قُرب محسوس کرنے لگتا ہے
جہاں اپنے سماجی مقام پہ سوال کرنا
بھٹکی ہوئی عورت کا لیبل بن جاتا ہے
ذمہ داری کی لائن میں میرا نمبر پہلا ہے
اُسی معاشرے میں حقوق کے لئے لڑنا پڑتا ہے
شادی کے بغیر عورت پچیس سال کی ہو جائے تو
گھر، خاندان اور غیر متعلقہ افراد کے کٹہرے میں
اپنی ایگزسٹینس کے باقی معنی ثابت کرنا ہوتے ہیں
عورت کی کامیابی، کامیاب شادی کے مترادف ہے
کامیاب شادی، سب آلٹرنیٹی سے مشروط ہے
میں ایسی گُھٹن ذدہ، منافق سوسائٹی سے ڈرتی ہوں۔۔۔

بڑی مشکل سے تھوڑا سا جمع کیا ہے
اس حوصلے کو کھونے سے ڈرتی ہوں
اب ذیادہ دیر تک لڑ نہیں سکوں گی
اپنا آپ ادھورا چھوڑ جاؤں گی
فطرت کے اس جبر سے ڈرتی ہوں۔۔۔

فرح