میری دوست میں آج کہنے آئی ہوں
نیلے پانی کے پنچھی لوٹ آیئں گے
عمر رسیدہ آنکھوں کے خواب ٹوٹنے سے زرا پہلے
تعبیر کی شاہراہ بن جا ئیں گے
دھڑکتے لمحوں کی ذندہ جاوید کہانی
تاریخ میں نئے دن کی طرح پھر اُگ آۓ گی
سفید آسمان کا بے نور روشن چاند
آنسوؤں کی تہہ میں روانی بھر دے گا
پرندے پھر سے منڈیروں پر گیت سُنائیں گے
سیاہ راتوں کے ماتم ستاروں کا بدن اوڑھ لیں گے
ننگے بھوکے بچے تن ڈھانپے
پیٹ بھر کر کھانا کھائیں گے
بازاروں کی زینت مجبور جسم نہیں بنیں گے
خالی ہتھیلیاں غریب کا مقدر نہیں ہوں گی
ظالم خود اپنے ظلم کا شکار ہوگا
کافر کہہ کر مارنے والا موت کا حقدار ہوگا
گردنیں صرف آقا کے آگے جھکیں گی
جینا سب کا ہموار، مرنا خوشگوار ہوگا
اذیتیں نیک کی شان اور ذلیتں بد کی پہچان ہونگی
راج ہوگا انسانیت کا، فرقوں کی دکان سرِبازار پاش پاش ہو گی
ناانصافی کا پھندہ آسمان کے مرکز پر لٹکایا جاۓ گا
میری دوست سنو!
پھر سے ایک ایسا جہان بسایا جائے گا
جہاں خوشیوں کا چمن سجایا جائے گا
فرح دیبا آکرم