دل ایسی راہ پہ چلنا چاہتا ہے
جس کی منزل
نظر آتی رہی
مگر اُس تک
میں کبھی پہنچ نہ پاؤں۔۔۔
پھسلن مٹی کا راستہ
جس پہ کبھی دھوپ نہ آئے
دن رات جیسا
رات بھیانک پاتال جیسی۔۔۔
کوئی اس کا مسافر ہو نہ طلبگار
وقت کا جبر ہو نہ زمانے کی قید
زندگی کی رعنائی ہو نہ موت کا آسیب۔۔۔
مجھے واپس بُلانے والوں کی
سب صدائیں بہری ہو جائیں
دیکھنے والوں کی بینائی نہ رہے
چاہنے والوں کے مرکز بدل جائیں
اور میں اُس دیوانے کی
لامتناہی تنہائی نگل لوں۔۔۔

فرح دیبا اکرم