کوئی وقت تھا
دُھند، بارش، برف
اچھی لگتی تھیں۔۔۔
اب آنکھیں کھڑکی سے
باہر جھانکتی رہتی ہیں
بارش یوں برستی ہے
کہ دل کی دیواروں میں
خشک سالی کی دراڑیں پڑنے لگتی ہیں
دُھند پُتلیوں پر نامعلوم مُسافت بھر دیتی ہے
برف سینے میں گرم تہیں چھوڑ جاتی ہے
مگر وہاں کچھ پہنچ نہیں پاتا۔۔۔
وعدہ درد کی دہلیز کو پار نہیں کر پاتا
نظارہ’ منظر بننے کی تاب میں۔۔۔
میری وحشت میں جھلس کر راکھ ہو جاتا ہے

فرح دیبا اکرم