کاش تم جان سکو
وبا کے دنوں میں
جھگڑا نہیں کرتے۔۔۔

جگر، ثروت حسین، منیر نیازی، سارا شگفتہ، ن م راشد، گلزار کی شاعری پڑھتے ہیں۔۔۔
انوشکا شنکر کی ستار، تاری خان کا طبلہ، بسم اللہ خان کی شہنائی، آندرے کی وائلن، فقیر حسین کی سارنگی اور مہدی حسن کی غزل سُنتے ہیں۔۔۔
ایلیسیا مارکوا، پنڈت برجو مہاراج اور شیما کرمانی کا رقص دیکھتے ہیں۔۔۔
استنبول کی کوفی پیتے ہیں
ہم نے ابھی تک جو نہیں کیں
بالکونی میں بیٹھ کر وہ باتیں کرتے ہیں
باغیچے میں کتنے پیارے پھول کھلے ہیں
اُن سے کمرے کے خالی گلدان سجاتے ہیں
پچھلے کچھ مہینوں میں جو بھی ہوا
اُسے ہم مل کر بھول جاتے ہیں۔۔۔
اور گُنگناتے ہیں۔۔۔یہ وقت بھی گزر جائے گا

تمہاری انا، ناراضگی پہ بضد ہو
تو ایک لمحے کو سوچو۔۔۔
اگر مہلک وقت مجھے نگل گیا
پھر کس سے جھگڑا کرو گی؟

فرح دیبا اکرم