سورج نکل آیا ہے۔۔۔ اُٹھ جاؤ
سورج سر پہ چڑھ آیا ہے۔۔۔ کچھ کر لو
سورج کچھ دیر میں ڈھلنے لگے گا۔۔۔
تم نے ابھی تک شروع نہیں کیا؟
سورج ڈھوب رہا ہے۔۔۔ کب کچھ کرو گے؟
سورج غروب ہو گیا۔۔۔ تم نے آج پھر کچھ نہیں کیا
رات ہو گئی ہے۔۔۔ ایک اور دن تمہاری زندگی سے کم ہو گیا۔۔۔

تم نے دنیا میں کچھ حاصل کرنا بھی ہے یا نہیں؟
کچھ تو ایسا کرو، باپ، دادا کا نام روشن ہو سکے
کوئی شارٹ ٹرم، مڈ ٹرم، لانگ ٹرم گول بنائے ہیں؟
کبھی شیڈول بنا کر لمحوں کا حساب رکھا ہے؟
کہ ایسے ہی سفر در سفر خاک چھانتے
غیر معروف لوگوں کی نایاب کہانیاں تلاشتے تلاشتے
ملنگوں کیطرح گمنامی میں رُخصت ہونا ہے۔۔۔

محترم، ایک نظر دنیا کے خداؤں کی سفاکی تو دیکھیے
انسان کو عقلی طور پہ اُس جگہ لا کے کھڑا کر دیا ہے
جہاں غلامی اتنی دلکش و دلفریب ہے کہ
انسان خوش دلی سے زنجیریں پہنتا ہی نہیں
خالص جذبے سے اس کا پرچار بھی کرتا ہے

آپ کیسے سمجھیں گے، کس قیامت کا روح و دل کو روز سامنا ہے
ہونے کا کفّارہ، وقت کے جبر سے نکل جانے میں مضمر ہے۔۔۔

(فرح دیبا اکرم)