مُجھ سے کمرے سے نہیں نِکلا جاتا
لوگ اپنی اوقات سے نکل جاتے ہیں۔۔۔
ملاقاتوں میں برکت نہیں رہی
اب ملتے کہاں ہیں؟
سوشلائز کرتے ہیں۔۔۔
وہیں ہوتے ہیں مگر ہوتے بھی نہیں
ہمارے پاس لمحوں کا میٹر ہے
تول کے وقت دیتے ہیں۔۔۔شارپ ۸ سے ایگزیکٹ ۹ تک
دن، رات کے تعاقب میں پاؤں ایکسیلیٹر پہ رکھا ہے
انسانیت ڈِگّی میں سٹپنی کے نیچے، ہچکولے کھا رہی ہے
بہترین آج کے لئے، آج کے بعد کل کے کیلئے
اپنے کل کے بعد۔۔۔اگلی نسل کے بہتر مستقبل کیلئے
مجھے بہت کمانا ہے۔۔۔ہر طرح سے۔۔۔ہر جگہ سے
ایسے ہی اندھا دُھند کماتے کماتے، لوگ مر جاتے ہیں
ایک دنیا بنانے میں، کئی دنیاؤں سے بےخبر گزر جاتے ہیں۔۔۔
فرح دیبا اکرم