زمین کے کسی حصے سے
واجبی سی شناسائی بھی
امکاں میں نہیں رہی۔۔۔
انسان نامعلوم کی تلاش لیے
زمین و آسماں میں مسلسل بھٹک رہا ہے۔۔۔
کہیں کچھ مل بھی جائے تو
مُسافر کی تشفی نہیں ہوتی۔۔۔
مُضطرب کی دیوانگی کو افاقہ ہو سکے
ایسا فیضانِ نظر بھی، اب میّسر نہیں۔۔۔
موجود اُونے پونے ختم ہو رہا ہے
چہرے رپیٹ ہونے لگے ہیں
پاتال کے اندر کی آوازیں
باہر کی دلدل میں پھنس گئی ہیں
روح اور جسم کے فراق سے پہلے
دل نے آسمان کی خاموشی پہ
خود کو بے سمت اُچھال دیا ہے۔۔۔
جاندار خواب میں ڈر کر
مسلسل جاگ رہے ہیں۔۔۔
اپنی اپنی ساخت کے اندر
خوف کی زندگی سے لڑتے لڑتے
موت کی میمِکری کرنے لگے ہیں۔۔۔
فرح دیبا اکرم