سیڑھی کو بھی سہارا چاہیے
آسماں ایسے نہیں اُٹھایا گیا۔۔۔

ممکن ہے کسی گناہ کی پاداش میں
مجھے دنیا میں بے دخل کیا گیا ہو
چہرے سبھی شناسا، یاداشتیں خالی ہیں
بتیس سال تیئس دن، ہر رات وہی مکالمہ
تو ہے۔۔۔نہیں ہے۔۔۔ہے یا نہیں، معلوم نہیں
ازل سے انسان پہیلی میں سر پھوڑتا آیا ہے
لیکن اُس نے اب تمھیں، ارریلیوینٹ کر دیا ہے۔۔۔

راستے کا لُطف اپنی جگہ سہی مگر
منزل اختتام نہیں، اختتام کا پڑاؤ ہو۔۔۔

فرح دیبا اکرم