نمبر بڑھتا ہے
وقت گھٹتا ہے
ہونے کا تاوان
نہ ہونے سے کہیں بڑا ہے بھائی
زمین کی چہرہ کھرچ کھرچ کر
انسان کا پاگل پن بڑھ رہا ہے
سینہ میرے جواز سے اتنا بھر گیا ہے
سانس کے لئے کوئی کونہ خالی نہیں
باہر سے اندر۔۔۔ اندر سے باہر
کوئی ترسیل اب نہیں
رابطہ ذہن سے دل کا۔۔۔ دل کا مُجھ سے
دھیرے دھیرے منقطع ہو رہا ہے۔
دوست۔۔۔ مجھے لکھنا آتا ہے
مگر لکھنے والی نہیں ہوں
ہاں میری بھی کوئی قیمت تو ہے
مگر بکنے والی نہیں ہوں
میرے لئے سروایول کے کئی مسئلے سہی
پھر بھی اپنی شناخت۔۔۔ اپنا شوق۔۔۔ اپنا خواب
کسی چمکتی کامیابی کے قدموں میں رکھنے والی نہیں ہوں۔
فرح دیبا اکرم