میری تنہائی اُداسی میں ہچکیاں بھرتی ہے
جب اس کا دم گھٹنے لگے تو
کھڑکی پہ پردہ ڈال کر
مدھم روشنی کو
اندھیرے کی چاندنی سے ڈراتی ہے

ایک آخری کام رہ گیا ہے
تیری امانت، تیرے سپرد کرنی ہے
اپنے جنوں کے بے معنی اضطراب کو
تمھارے دروازے کے ڈور میٹ پہ رکھ کر
زمانے کی زنجیر کھینچنی ہے

میں وحشت کا استعارہ ہوں
زندگی میری آہٹ سے ڈر جاتی ہے
موت آواز کے سنّاٹے میں ہڑبھڑا اُٹھتی ہے
جانتے ہو، میں جہاں ہوں۔۔۔وہاں آسماں کا سایہ نہیں
بس اُس کی اک آہ نے
میرے خواب کی تعبیر اُلٹ دی۔۔۔

فرح دیبا اکرم