سیدھی سی لمبی سڑک
جس پہ دو دن سے بارش
پیلی روشنی میں، رات گئے چمکنے لگتی ہے
وقفے وقفے سے ایک آدھ گاڑی ٹائروں کی چھن سے
ماحول میں عجیب رومانوی ارتعاش بھر دیتی ہے
مئی میں جنوری سا دُھواں آسمان کی طرف
دور، گھروں کے بعد مسحور کُن پہاڑ
بادلوں سے محوِ گفتگو ہیں
میں پانچویں منزل کی کھڑکی میں کُہنیاں ٹِکائے
سرد ہوا کا اشنان کرتی ہوئی
ہنگیرین مون سون کا لاہور سے تقابل کرتی ہوں
دل چاہتا ہے یہ اندھیرے کا تخلیقی سنّاٹا
میلوں سے پرے پھیلی چُپ کی کہانیاں
موسم کے بیش قیمت اندازِ گفتگو
حبس ذدہ جگہوں کی گُھٹن میں دبے
نامعلوم اثاثوں کی دہلیز پہ رکھ آؤں۔۔۔

فرح دیبا اکرم