خواب کے خوف سے
آنکھ جس حقیقت میں جاگی
خواب سے زیادہ بھیانک تھی
اسکی بیداری بھی نہیں
کبھی آسمان سرکتے سرکتے
سر پہ آن گرتا
کبھی زمین گھٹ گھٹ کر
پیروں سے نکل جاتی
خدا دیکھ رہا تھا
جب میں دن رات
ایک ایک انچ
وحشت میں مٹ رہی تھی
شاہکار کے جسم، دل اور روح
بےمعنویت میں غرق ہو رہے تھے
وہ سُن بھی رہا تھا
جب میری ہڈیاں اس تماشے کا جواز ڈھونڈتے ڈھونڈتے
وقت کی بے لگام رفتار میں
تڑک تڑک ٹوٹنے لگ گئی تھیں
پھر مہینوں زمانے سے کٹ کر
اپنے اندر ہچکولے لیتی رہی
شاید مجھے کوئی سراغ مل جائے
شاید میں اُس کی حد سے نکل سکوں۔۔۔

فرح دیبا اکرم