بھلے تھے ہم، وقت بھی خیر خواہ تھا
وجودی بحران سے آزاد
اپنی موج میں گھومتے رہتے۔۔۔
دن روشنی میں جاگتے
راتیں اندھیرے میں سو جاتیں۔۔۔
پیپل کے پتوں کی سرسراہٹ میں
خوشی گندمی گالوں پہ بکھری رہتی۔۔۔
شام گلیوں میں پھیلتی تو بچوں کی آوازیں
دالانوں میں جنسی تفریق کے بنا بھر جاتیں۔۔۔
باسیوں کے دکھ سُکھ سانجھے تھے
مُنڈیریں پرندوں کی آمد سے خالی نہ ہو پاتیں۔۔۔
گھر مہمانوں، تھڑے بابوں سے گونجتے رہتے
گلیاں راہگیروں کو بات کیے بِنا گزرنے نہ دیتیں۔۔۔
دروازے سہلیوں کے قہقوں میں کُھلے رہتے
اینٹینے والا ٹی وی، تین چینلز اور پورا محلّہ
ایک ڈرامہ دلوں کو رواداری میں باندھ دیتا۔۔۔
باغ علی کا لنگر
رزق میں برکت، دل میں فیاضی لاتا۔۔۔
بے وجہ ملاقاتیں، تعلق بے غرض، خدمت بے لوث
سادگی ضرورتِ زندگی، فطرت عیاشی تھی۔۔۔
پھر ہم نے وقت کو دائرے میں باندھا
اُس نے ہمیں نینو سیکنڈز میں بانٹ کر
خالی، وحشت ذدہ، ادھورا انسان پیدا کیا
جو خود سے کٹ کر۔۔۔
نطشے کی میلنکولی میں غرق ہے

فرح دیبا اکرم