پچھلی یاد سے
نئے تعلق میں
اُسے مسلسل سُن رہی ہوں
وہ مُجھ میں مسلسل بول رہا ہے۔۔۔
راتیں کیسے بحث و تکرار میں اُلجھتی رہیں
دن سانس کی قیمت میں صرف ہو گئے۔۔۔
جُملے نرم سے سخت۔۔۔سخت سے تُند۔۔۔تُند سے تکلیف دہ ہوئے
اُسے شور پسند تھا
میں چیخ نہیں سکتی تھی۔۔۔
اک شام لڑتے لڑتے
بے بسی کی اذیت میں
وہ کمرے سے برآمدے کی سیڑھیوں پہ جا بیٹھا
بچوں کی طرح بے پرواہ
کئی گھنٹے ہچکیوں سے روتا رہا۔۔۔
جیسے کوئی بھرا برتن، اچانک زمین پہ اُنڈیل دے
جانے وہ کون سا نحص لمحہ تھا
جس میں اُسے چُپ نگل گئی۔۔۔
دن، مہینے، سال۔۔۔امید میں رخصت ہوئے
لیکن ہم آواز کو دروازہ کھول کے اندر نہیں بُلا سکے۔۔۔
سرد مہری گلیشیئر سے پھوٹ کر
ہمارے دلوں میں جوان ہو گئی تھی۔۔۔
اُسے نفسیات نے دھوکہ دیا
مجھے خود پسندی نے رُسوا کیا
ہم اپنے ہی کھینچے دائروں میں بھٹکتے ہوئے
ساری زندگی خود کو پار نہ کر سکے۔۔۔
فرح دیبا اکرم