اس واقعے کو کوئی چھ سات سال ہو گئے ہیں لیکن مُنّو بھائی کی ہر بات کی طرح یہ بات بھی ابھی تک میرے ذہن پہ نقش ہے، میں مُنّو بھائی کے گھر اُن کی دانش سے اپنی جہالت کو کم کر رہی تھی کہ وہ کہنے لگے فرح پتہ ہے جب ایک بڑا گھر، بڑی کوٹھی بنتی ہے تو کتنے ہی چھوٹے گھر بننے سے محروم رہ جاتے ہیں میں حیرانگی سے اُنہیں دیکھنے لگی وہ بولے Behind every big fortune there is a crime
تب تو معلوم نہیں کس حد تک یہ بات عقل میں آئی تھی لیکن محسوس ہوتا ہے آج کافی حد تک سمجھ آ گئی ہے۔
میری طرح آپ سب بھی روزانہ کی بنیاد پر یہ جملہ سُن رہے ہیں خاص کر حکومتی لوگوں سے کہ مصیبت کی گھڑی میں اپنے غریب بہن بھائیوں کے لئے دل کھول کر مدد کیجئیے، بھائی یہ مخیّر حضرات کون ہیں؟ ان کی کتنی نسلوں کی محنت کے نتیجے میں یہ اس مرتبے کو پہنچے ہیں؟ اس کثیر دولت کو کتنے جائز ذرائع سے اکٹھا کیا گیا ہے؟ اس مللک کے مجوزہ قوانین پر کتنا عمل کر کے یہ ایمپائرز کھڑی کی گئی ہیں؟ آپ نے سالانہ کتنا ٹیکس دیا ہے؟
ہمارے پاس اس وقت جو ٹاپ کے کچھ لوگ ہیں اُن میں سے اکثر کی اس مقام تک پہنچنے کی کہانی پڑھیں یا سُنیں تو اچھی طرح معلوم ہو گا کہ ان کا راستہ کتنا سیدھا تھا۔ سائیکل پہ اکیڈمی میں پڑھانے جانے والا ملک کا سب سے بڑا تعلیمی نیٹ ورک چلا رہا ہے، جس کے گھر میں کھانا مشکل سے پورا ہوتا تھا وہ ایشیا کا سب سے بڑا پراپرٹی ٹائیکان ہے، ایک منشی ملٹی کمپنیز جس میں ایک بہت بڑا بینک شامل ہے اس کا مالک ہے، خیر باقیوں کی کہانیاں بھی ملتی جلتی ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے کرم سے یہ سب اپنی پوری زندگی لگا کر نہیں بلکہ چند سالوں کی مشقت سے ہی حاصل کر لیا ہے اور اسے مزید بڑھانے کے لئے سر توڑ کوشش میں دن رات مصروف ہیں، ان کی خوش قسمتی دیکھیے ابھی تک نیب کی کسی کارروائی کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑا اور ہماری نسل کے سامنے انہیں مثال کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھیے انہوں نے کچھ ہی سالوں میں اپنی سخت محنت سے کتنا بڑا مقام حاصل کیا ہے، یہ مخیر حضرات جو نجانے کتنے لوگوں کا حق مار کر یہاں پہنچے ہیں اب وہی سخاوت کر کے معاشرے کے سب سے بڑے ہمدرد بنے بیٹھے ہیں، پہلے حق چھینیے پھر اُس میں سے کچھ سخاوت کییجیے اور معاشرے کے درد دل والے مخیر حضرات بن جائیے، ان سے پوچھیے جو ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کے پاس کام کرتے ہیں ان کی محنت کا کس حد تک جائز معاوضہ دیتے ہیں؟
فیصل آباد کے ارب پتی اپنی فیکٹریز میں مزدوروں کو تنخواہ تک وقت پر نہیں دیتے اور تنخواہ بھی ان کی محنت کے مطابق نہیں ہے لیکن ہر سال زیادہ زکوۃ دینے میں ان کا بڑا نام ہے اگر یہی پیسہ پورا سال اپنے مزدوروں پہ خرچ کریں تو ان کو زکوۃ دینے کے لئے باہر نہیں جانا پڑے گا لیکن اس میں مسئلہ ہے کہ اُن کی نیک نامی بہت بڑے سخاوت کرنے والے کے طور پہ نہیں ہو گی۔ یہ لوگ پہلے لوگوں کو معاشی قتل سے یا ان کا جائز حق مار کر اوپر نہیں اُٹھنے نہیں دیتے پھر اپنی سخاوت سے اُن کے مددگار بن کر سماج کے بڑے طرّم خان بن جاتے ہیں۔
اچھا یہ گزارش کرنے والے وزیر اعظم اور ان کے حواریوں میں سے کسی ایک نے بھی کیا اپنی جائیداد میں سے کچھ حصہ اس کرونا فنڈ یا کرونا خدمت میں ابھی تک دینے کا اعلان کیا ہے؟ اگر نہیں تو ایسی صورت حال میں جب آپ اپنے مال میں سے جو اسی ملک میں انہی لوگوں کی محنت اور ان کے حق سے کمایا ہے اس میں سے ایک روپیہ بھی اس قیامتِ صغریٰ میں ان پر خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور پوری بے شرمی اور ڈھٹائی سے سکرین پہ کھڑے ہو کر مدد کی اپیل کرتے ہیں تو یقین رکھیں جنہوں نے جائز طریقے سے کمایا ہے وہ آپ کے اس فراڈ فنڈ میں کچھ نہیں دیں گے لیکن وہ جنہوں نے آپ کی ملی بھگت سے ناجائز کمایا ہے وہ ضرور دیں گے تاکہ ان کی نیک نامی کی مارکیٹنگ ہو، آپ کا تعاون آگے بھی حاصل رہے اور کچھ ذہن کا احساسِ جرم بھی کم ہو جائے۔
خطاب کے شوقین وزیر اعظم نے اپنے حالیہ تقریر میں فرمایا ہے کہ ایک ایپ متعارف کروائی جا رہی ہے تا کہ غریب لوگوں کو راشن پہنچایا جا سکے، اس افلاطونی عقل کے فیصلے پہ آفرین ہی کہا جا سکتا ہے۔ بھائی یہ جو فوج وزیروں، مشیروں اور معاونین کی ہے ان میں سے کسی کو بھی اتنی سی عقل نہیں تھی کہ آپ کو بتاتے کہ جہاں لوگوں کے پاس کھانے کو نہیں وہاں وہ سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی بنیادی ضرورت کیسے پوری کریں گے راشن کے تھیلے کو حاصل کرنے کے لئے، مجھ جیسے عام فہم کو یہ بات سجھائی دے رہی ہے کہ ہر علاقے کے ایم پی اے اور ایم این اے کو راشن دے کر ان کے حلقے کے ایک ایک گھر میں راشن دے کر ویسے ہی بھیجیں جیسے وہ دن رات ان لوگوں کے گھروں میں ووٹ مانگنے کے لئے چکر کاٹتے تھے اور ان کو اس بات کا پابند کرتے کہ وہ یہ کام پوری ایمانداری سے سر انجام دیں، ساتھ ساتھ لوگوں کو کرونا سے بچنے کے طریقے، احتیاطی تدابیر اور ضروری اشیا بھی فراہم کریں، ان کو حوصلہ دیتے کہ آپ اور ہم مل کر یہ وقت خیریت سے گزار لیں گے تا کہ ان سیاستدانوں کو ان لوگوں کی تکلیف اور مسائل کا ادراک ہوتا اور ووٹ دینے والے کو بھی خوشی ہوتی کہ انہوں نے جس کو اپنا نمائندہ چُنا تھا اس نے تکلیف میں اُن کا سہارا بن کر اُن کے فیصلے کو صحیح ثابت کیا ہے۔
ان کو تنبیہ کی جاتی کہ اس سارے عمل میں تصویر کشی کو حرام سمجھتے ہوئے اپنے فرض کو احسان بنا کر تشہیر کرنے سے باز رہیں۔ لیکن مسئلہ وہی ہے جن لوگوں نے وائرس کو پریس کانفرنسسز، خطابات، سوشل میڈیا اور اشتہاروں سے لڑنا ہو اُن کو ان باتوں سے اور مشکل میں پھنسے ہوئے لوگوں کا اصل مددگار بننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہاں وہ ایک سابق چیف جسٹس صاحب بھی تھے جنہوں نے ڈیم فنڈ میں خاصا پیسہ اکٹھا کیا تھا ذرا اُن سے کہیے وہ رقم ہمارے لوگوں پہ خرچ کر دیں۔ یہ زندہ بچ گئے تو ڈیم بھی بنا لیں گے۔ ہم پاکستان سے ہیں تو پاکستان بھی ہم سے ہے۔
مخیر افراد کی دولت کے پیچھے چھپے جرائم